اسلام اور پاکستان ۔ تاریخی علمی سیاسی اور ثقافتی پس منظر
مقدمہ
پاکستان اور اسلام ،پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم سوال یہی رہا ہے کہ یہ ملک کن بنیادوں پر وجود میں آیا اور اس کا اصل مقصد کیا تھا؟ کیا یہ محض ایک جغرافیائی خطہ تھا یا ایک ایسی ریاست جو اسلام کے نظریے پر قائم کی گئی تھی؟
یہ سوال صرف تاریخی نہیں بلکہ عملی اور تہذیبی پہلو رکھتا ہے۔ آج بھی جب ہم پاکستان کے سیاسی بحران، معاشرتی انتشار اور تہذیبی کشمکش پر نظر ڈالتے ہیں تو

https://mrpo.pk/the-meaning-of-la-ilaha-illa-allah-muhammad-rasulullah/معلوم ہوتا ہے کہ اصل تنازع نظریۂ پاکستان اور اس کی روح کی پہچان ہی ہے۔
اس کے دوام اور بقاء کا بھی جواز فراہم کرتا ہے۔ وہ عظیم نظریہ، دینِ اسلام ہے۔ وہی دینِ حق جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر تشریف لائے۔ جس میں انسانوں کے حقوق، عزت و تکریم، مساوات، برابری، امانت و دیانت، سچائی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی بات ہوتی ہے۔
نظریہ پاکستان حقیقت میں وہی نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں سب سے زیادہ انسانیت کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے۔ جو انسان ساز، انسان دوست اور انسان نواز ہے۔ جس کی اساس ’’لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘ ہے۔ یہی وہ کلمہ طیبہ ہے جس کے اقرار و اعلان سے انسان کے ظاہرو باطن میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام معبودانِ باطلہ اور ظالمانہ قوانین اور انسانیت سوز نظام کا انکار بھی ہوتا ہے۔
اسلام محض عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر نظامِ حیات ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو سمت عطا کرتا ہے۔ پاکستان اسی تصور کی بنیاد پر وجود میں آیا کہ مسلمانوں کی تہذیب، ان کی دینی اقدار اور ان کا اجتماعی نظام ایک علیحدہ ریاست کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہم اس خواب کو عملی صورت دینے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
یہ کتاب اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی ایک کوشش ہے
اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
پاکستان کے قیام میں اس کا کیا کردار تھا؟
ہماری ریاست اور تہذیب پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
اور آج کے حالات میں اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟
اسی جستجو کے ساتھ ہم اس مطالعے کا آغاز کرتے ہیں۔
باب اوّل۔ اسلام کا بنیادی نظریہ
اسلام ایک ایسا ہمہ گیر دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صرف چند عبادات یا اخلاقی نصائح کا نام نہیں بلکہ ایک جامع نظام ہے جو فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست سب کو اپنے دائرے میں لیتا ہے۔ اسلام کا بنیادی نظریہ چند اہم اصولوں پر قائم ہے۔

توحید۔ زندگی کی بنیاد
اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی عقیدہ توحید ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ کائنات کا خالق، مالک اور حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے نتیجے میں۔
انسان ہر قسم کے شرک اور باطل طاقتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
زندگی کے ہر شعبے میں بندگی صرف اللہ کے لئے مخصوص ہو جاتی ہے۔
سیاسی و سماجی نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل رہتی ہے۔ (Sovereignty) ۔
یہی توحید انسان کو باعزت اور آزاد بناتی ہے کیونکہ وہ صرف ایک خدا کے سامنے جھکتا ہے۔
رسالت۔ عملی نمونہ
اسلامی نظریے کا دوسرا ستون رسالت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت انسانوں تک اپنے برگزیدہ رسولوں کے ذریعے پہنچائی اور اس سلسلے کی تکمیل حضور نبی کریم ﷺ پر ہوئی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر معاملے میں نبی ﷺ کی سیرت اور سنت کو معیار بنائے۔
رسالت اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ کی ہدایت صرف نظری نہیں بلکہ عملی نمونہ کی شکل میں موجود ہے۔
اسلامی ریاست اور معاشرت کا عملی خاکہ ہمیں مدینہ کی زندگی میں ملتا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے قائم کی۔
آخرت۔ ذمہ داری کا احساس
اسلام کا تیسرا بنیادی عقیدہ آخرت ہے۔ یہ تصور انسان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوگی۔
ہر عمل کی جواب دہی اللہ کے سامنے ہے۔
عدلِ کامل صرف آخرت میں قائم ہوگا، اس لئے دنیاوی زندگی عدل و تقویٰ پر گزارنا ضروری ہے۔
آخرت کا یقین فرد اور معاشرے کو احتساب، دیانت اور امانت کی راہ دکھاتا ہے۔
شریعت۔ نظامِ حیات
اسلام صرف عقائد پر نہیں رکتا بلکہ ان کی بنیاد پر ایک مکمل نظامِ حیات فراہم کرتا ہے جسے شریعت کہا جاتا ہے۔
شریعت انسان کو یہ بتاتی ہے کہ کس طرح عبادات ادا کی جائیں، کس طرح اخلاقی زندگی گزاری جائے اور کس طرح سیاسی، معاشی اور سماجی معاملات چلائے جائیں۔
یہ محض قانون نہیں بلکہ ایک ایسا توازن ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کی فلاح کو یقینی بناتا ہے۔
عدل اور توازن۔ اسلامی نظام کا مقصد
اسلام کا بنیادی مقصد دنیا میں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں عدل، توازن اور خیر غالب ہو۔
فرد کو اس کے حقوق اور فرائض کے ساتھ متوازن کردار دیا جائے۔
معاشرہ ظلم، ناانصافی اور استحصال سے پاک ہو۔
ریاست کا کام ہو کہ وہ اس عدل کے قیام کو یقینی بنائے۔
خلاصہ
اسلام کا بنیادی نظریہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ
زندگی کے تمام فیصلے اللہ کی بندگی کے تحت ہوں۔
نبی ﷺ کی سنت ہمارے لئے عملی رہنمائی فراہم کرے۔
آخرت کا یقین ہمیں جواب دہی کے احساس میں رکھے۔
شریعت انسان اور معاشرے دونوں کو عدل و فلاح کے راستے پر ڈالے۔
یہ وہ بنیاد ہے جس پر ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست تعمیر کی جاتی ہے۔ پاکستان کا نظریہ اسی بنیاد پر قائم ہوا، جس کی تفصیل ہم اگلے باب میں دیکھیں گے۔
باب دوم۔ پاکستان کا قیام اور نظریاتی پس منظر
پاکستان کا قیام بیسویں صدی کے سب سے بڑے سیاسی و تہذیبی واقعات میں سے ایک تھا۔ اس واقعے کی جڑیں محض سیاسی یا جغرافیائی محرکات میں نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی بنیاد میں پیوست ہیں۔ یہ بنیاد اسلام ہے، جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو الگ تشخص دیا اور انہیں ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد پر آمادہ کیا۔
برصغیر کا تاریخی تناظر
برصغیر میں مسلمان کئی صدیوں تک حکمران رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک ایسی تہذیب قائم کی جس میں اسلام کی روح جھلکتی تھی۔ لیکن جب مغلیہ سلطنت کمزور ہوئی اور برصغیر انگریزوں کے قبضے میں آیا تو مسلمان زوال کا شکار ہو گئے۔
انگریزی اقتدار کے ساتھ مغربی تہذیب اور فکر نے معاشرت میں داخل ہونا شروع کیا۔
مسلمانوں کا سیاسی اقتدار ختم ہو گیا اور وہ تعلیمی و معاشی لحاظ سے پسماندہ ہو گئے۔
ہندو اکثریت نے انگریزوں کے ساتھ مل کر معاشرتی غلبہ حاصل کرنا شروع کیا۔
ان حالات نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کا وجود صرف اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ اپنے الگ تشخص کو برقرار رکھیں۔
مسلم تشخص اور علیحدہ قومیت
مسلمانوں نے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ ان کی تہذیب، دین اور معاشرت ہندو اکثریت سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔
قرآن، سنت اور اسلامی قانون ان کی زندگی کا مرکز تھے۔
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اسلامی عیدیں اور معاشرتی اقدار ان کی شناخت تھیں۔
ہندو مت کی روایات، عقائد اور معاشرتی نظام ان سے یکسر مختلف تھے۔
یہ فرق اتنا بنیادی تھا کہ مسلمانوں نے خود کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کیا۔ یہی وہ نکتہ تھا جسے بعد میں دو قومی نظریہ کہا گیا۔
علیحدہ ریاست کا تصور
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمان مفکرین اور رہنما اس نتیجے پر پہنچے کہ برصغیر میں مسلمان صرف اس وقت اپنی شناخت محفوظ رکھ سکتے ہیں جب انہیں ایک علیحدہ ریاست حاصل ہو۔
سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو سیاسی شعور دیا۔
علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں اپنے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا خواب پیش کیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اس خواب کو ایک عملی تحریک میں بدلا اور لاکھوں مسلمانانِ ہند اس جدوجہد میں شریک ہوئے۔
پاکستان کا مقصد
پاکستان محض ایک جغرافیائی وحدت کے طور پر وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے ایک نظریہ کارفرما تھا۔
مسلمانوں کو ایک ایسا خطہ دیا جائے جہاں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزار سکیں۔
ایک ایسی ریاست قائم کی جائے جو اسلامی عدل، مساوات اور اخوت کا عملی نمونہ ہو۔
ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں دین اور دنیا کے درمیان کوئی خلیج نہ ہو۔
سوال۔ اسلامی ریاست یا جغرافیائی وطن؟
قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ پاکستان کا مقصد کیا تھا؟
ایک گروہ کا خیال ہے کہ پاکستان کا قیام صرف مسلمانوں کے لئے ایک جغرافیائی وطن تھا تاکہ وہ ہندو اکثریت کے تسلط سے بچ سکیں۔
دوسرا گروہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا اصل مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا جہاں قرآن و سنت کی بالادستی ہو۔
تاریخی شواہد اور بانیانِ پاکستان کے اقوال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کا مقصد صرف جغرافیائی وطن نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست تھی جو اسلام کی بنیاد پر تعمیر ہو۔
خلاصہ
پاکستان کا قیام ایک نظریاتی پس منظر رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی تہذیبی اور دینی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لئے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا۔ یہ ریاست اسلام کے اصولوں پر قائم ہونی تھی، تاکہ مسلمان ایک آزاد ماحول میں اپنی زندگی دین کی روشنی میں گزار سکیں۔
یہ پس منظر ہمیں اگلے مرحلے تک لے جاتا ہے۔ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں اسلام کا عملی مقام کیا ہے؟ اس پر ہم اگلے باب میں گفتگو کریں گے۔
باب سوم۔ اسلامی نظریہ اور پاکستانی ریاست
پاکستان کی بنیاد اسلام کے نظریے پر رکھی گئی تھی۔ بانیانِ پاکستان نے بارہا کہا کہ یہ ملک صرف اس لیے وجود میں آیا ہے تاکہ یہاں مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاستی سطح پر اسلام کے اس نظریے کو کس طرح جگہ ملی اور عملاً کیا پیش رفت ہوئی؟
دستور پاکستان میں اسلام کی حیثیت
قیامِ پاکستان کے بعد ریاست کی نظریاتی سمت کا تعین کرنے کے لئے سب سے اہم قدم دستور سازی تھا۔
سن ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کی گئی، جس میں واضح کیا گیا کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور ریاست کے تمام ادارے اسی حاکمیت کے نائب ہیں۔
دستور پاکستان (۱۹۷۳ء) میں یہ شقیں شامل کی گئیں کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا اور موجودہ قوانین کو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے گا۔
صدر اور وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدوں کے لئے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا۔
یہ دفعات اس بات کی گواہی ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر اپنی شناخت رکھتا ہے۔
اسلامی ریاست کے اصول
اسلامی ریاست کے بنیادی اصول وہی ہیں جو قرآن و سنت نے واضح کیے ہیں اور جنہیں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں عملی شکل دی
حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کے لئے ۔ ریاست کا اصل قانون قرآن و سنت ہے۔
عدل و انصاف ۔ ریاست کا فرض ہے کہ ہر شہری کو مساوی انصاف فراہم کرے۔
شوریٰ (مشاورت)۔ اجتماعی فیصلے مشورے سے ہوں اور عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے۔
حقوق و فرائض کی توازن ۔ فرد کو حقوق بھی دیے جائیں اور اس پر ذمہ داریاں بھی عائد ہوں۔
اخوت اور مساوات ۔ دولت، نسل یا رنگ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔
یہ اصول پاکستان کے آئین اور ریاستی ڈھانچے کے بنیادی ستون ہونے چاہیے تھے۔
عملی نفاذ کے مسائل
اگرچہ دستور اور پالیسی دستاویزات میں اسلام کو تسلیم کیا گیا، لیکن عملی نفاذ کے میدان میں کئی رکاوٹیں سامنے آئیں
حکمران طبقہ ۔ اکثر نے اسلام کو محض سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا لیکن اقتدار کے بعد ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی۔
قانونی ڈھانچہ ۔ نوآبادیاتی دور کے قوانین بڑی حد تک جوں کے توں باقی رہے اور اسلامی قوانین محض جزوی طور پر شامل کئے گئے۔
انتظامیہ اور عدلیہ ۔ نظام زیادہ تر انگریز دور کی روایات پر قائم رہا، جس سے عوام کو اسلامی عدل و مساوات کی حقیقی جھلک نہ مل سکی۔
عملی پالیسیوں میں تضاد ۔ ایک طرف اسلامی دفعات آئین میں درج رہیں، دوسری طرف معاشی، تعلیمی اور سماجی پالیسیاں مغربی ماڈلز کی پیروی کرتی رہیں۔
عوامی مایوسی ۔ جب بار بار اسلام کے نام پر وعدے کئے گئے لیکن عملی نتائج برآمد نہ ہوئے، تو عوام میں بداعتمادی پیدا ہوئی اور ریاست و عوام کے درمیان ایک نظریاتی خلا وسیع ہوتا گیا۔
خلاصہ
پاکستان ایک اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ دستور اور قانون میں اس نظریے کو تسلیم کیا گیا، لیکن عملی سطح پر ہم اس کو حقیقی معنوں میں نافذ نہ کر سکے۔ ریاستی کمزوریاں اور حکمرانوں کی بے عملی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کو محض دستاویزات تک محدود رکھا گیا، جب کہ عوام کا مطالبہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے۔
یہی تناظر ہمیں اگلے سوال کی طرف لے جاتا ہے
پاکستانی تہذیب اور تمدن پر اسلام کا اثر کیا ہے اور ہم اس ورثے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
باب چہارم۔ پاکستانی تہذیبی و تمدنی تناظر
پاکستان کی تشکیل صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں تھی بلکہ ایک تہذیبی و تمدنی جدوجہد کا حاصل بھی تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے صدیوں تک ایک ایسی تہذیب پروان چڑھائی جو اسلام کی روح سے جڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہ سوال اہم تھا کہ اس تہذیب کو کس طرح محفوظ رکھا جائے اور نئی نسل کو منتقل کیا جائے۔
پاکستانی معاشرت میں اسلامی ورثہ
پاکستانی معاشرہ اپنی اصل میں اسلامی اقدار کا وارث ہے۔
عائلی زندگی ۔ نکاح، خاندانی رشتے، وراثت اور دیگر معاملات اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں۔
معاشرتی تعلقات ۔ سلام، ایثار، مہمان نوازی اور صلہ رحمی جیسے عناصر اسلامی معاشرت کی جھلک دکھاتے ہیں۔
اجتماعی شعائر ۔ رمضان، عیدین، جمعہ، اور مذہبی تقریبات قومی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ پہلو اس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان کا سماجی ڈھانچہ اسلام کی جڑوں سے جڑا ہوا ہے۔
زبان، تعلیم اور ثقافت کا کردار
اسلامی تہذیب کے فروغ میں زبان، تعلیم اور ثقافت بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
زبان۔ اردو نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرویا اور یہ اسلامی ثقافتی ورثے کی نمائندہ زبان بنی۔
تعلیم ۔ دینی مدارس اور عصری ادارے دونوں نے شعور پیدا کرنے میں کردار ادا کیا، لیکن یکساں نصاب نہ ہونے کی وجہ سے فکری تقسیم برقرار رہی۔
ثقافت ۔ اسلامی تہذیب کا اظہار لباس، فنون اور روزمرہ زندگی میں ہوتا رہا، تاہم مغربی اثرات نے اس کو کمزور کیا۔
میڈیا اور جدید رجحانات
میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو معاشرتی اقدار کو تشکیل دیتا ہے۔
ابتدائی برسوں میں میڈیا نے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے میں مدد دی۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مغربی اقدار اور غیر اسلامی رجحانات کو فروغ ملا۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں ایک کشمکش جاری ہے۔ ایک طرف اسلام کی جڑوں سے وابستہ تہذیب اور دوسری طرف مغربی ثقافتی یلغار۔
جدید چیلنجز
پاکستانی تہذیب آج کئی چیلنجوں سے دوچار ہے۔
سیکولر رجحانات ۔ کچھ طبقات ریاست اور معاشرت کو مذہب سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انتہا پسندی ۔ بعض گروہ اسلام کے نام پر سخت رویے اپناتے ہیں جو اسلام کی اصل روح کے منافی ہیں۔
مغربی اثرات ۔ فیشن، میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے مغربی اقدار تیزی سے معاشرت میں سرایت کر رہے ہیں۔
تعلیمی کمزوری ۔ نظریاتی تعلیم پر کم توجہ دینے سے نئی نسل اپنی اسلامی شناخت کے بارے میں الجھن کا شکار ہے۔
خلاصہ
پاکستانی معاشرت اپنی بنیادوں میں اسلامی ہے لیکن اسے کئی خطرات لاحق ہیں۔ اگر اسلامی ورثے کو شعوری طور پر محفوظ نہ کیا گیا تو قومی شناخت کمزور ہو سکتی ہے۔ زبان، تعلیم اور میڈیا کو اسلامی اقدار کی مضبوطی کے لئے استعمال کرنا ناگزیر ہے۔
یہ بحث ہمیں اگلے اہم مرحلے کی طرف لے جاتی ہے کہ عملی صورتِ حال میں ریاست اور معاشرہ اسلام کے تقاضوں سے کس حد تک ہم آہنگ ہیں؟
باب پنجم۔ عملی صورت حال اور مسائل
پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی اور اس کی تہذیبی روح بھی اسلامی ہے، لیکن عملی حالات اس نظریے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔ ریاست اور معاشرہ دونوں میں وہ تضادات اور کمزوریاں پیدا ہوئیں جنہوں نے اسلامی نظریے کے عملی نفاذ کو مشکل بنا دیا۔
ریاستی سطح پر تضادات
ریاستی اداروں نے اسلام کو تسلیم کیا، لیکن عملی سطح پر کئی رکاوٹیں موجود رہیں
قانون سازی ۔ آئین میں اسلام کی دفعات موجود ہیں لیکن قانون سازی اکثر مغربی ماڈلز اور نوآبادیاتی ورثے کی بنیاد پر ہوئی۔
نظامِ عدل ۔ عدلیہ کا ڈھانچہ بڑی حد تک انگریز دور کے اصولوں پر قائم ہے، جو اسلامی عدل و انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
انتظامیہ اور سیاست ۔ حکمران طبقہ اکثر اسلام کو صرف نعرے کے طور پر استعمال کرتا ہے، لیکن پالیسیوں میں ذاتی و گروہی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
عوامی سطح پر مشکلات
عوامی سطح پر اسلام کے ساتھ محبت اور وابستگی موجود ہے، مگر عملی رکاوٹیں نمایاں ہیں
تعلیمی فرق ۔ مدارس اور عصری اداروں کی تقسیم نے عوامی شعور میں تضاد پیدا کر دیا۔
معاشی دباؤ ۔ غربت اور بے روزگاری نے عوام کو روزمرہ مسائل میں الجھا دیا، جس کے باعث نظریاتی جدوجہد پیچھے رہ گئی۔
مذہبی گروہ بندی۔ مختلف مکاتبِ فکر کے باہمی اختلافات نے اسلامی وحدت کو کمزور کیا۔
قیادت کی کمزوریاں
پاکستان میں قیادت کا بحران سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے
اکثر قیادت نے اسلام کو صرف سیاسی طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا۔
نظریاتی استقامت اور سرفروشی کی وہ صفات جو اسلامی قیادت کی پہچان ہیں، کم ہی نظر آئیں۔
اس خلا کو پُر کرنے کے لئے کوئی مستقل اور تربیت یافتہ جماعت سامنے نہ آ سکی۔
عوام اور ریاست کے درمیان خلیج
اسلام کے معاملے میں عوام کی توقعات اور ریاست کے رویے کے درمیان واضح خلا موجود ہے
عوام ایک اسلامی معاشرہ اور عدل پر مبنی نظام چاہتے ہیں۔
ریاستی ادارے اسلام کو محض دستاویزات اور تقریروں تک محدود رکھتے ہیں۔
اس تضاد نے عوامی سطح پر مایوسی اور بداعتمادی کو جنم دیا۔
تہذیبی و فکری بحران
پاکستانی معاشرت کو فکری سطح پر بھی کئی بحران درپیش ہیں
سیکولر سوچ ریاست کو دین سے الگ رکھنا چاہتی ہے۔
انتہا پسندی دین کو سخت گیری اور جبر کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
معتدل اسلامی فکر جو اصل میں پاکستان کی بنیاد ہے، اس کشمکش کے درمیان کمزور نظر آتی ہے۔
خلاصہ
پاکستان کی عملی صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ اسلام اور ریاست کے تعلق میں بڑے تضادات موجود ہیں۔ عوامی خواہش اور ریاستی رویے کے درمیان خلیج نے نظام کو کمزور کیا ہے۔ قیادت کی کمی اور تہذیبی بحران نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔
یہ تصویر ہمیں اگلے باب تک لے جاتی ہے
ان امکانات اور راہِ حل پر غور، جن کے ذریعے پاکستان کو اس کی اصل نظریاتی منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
باب ششم۔ امکانات اور راہِ حل
اگرچہ پاکستان کی عملی صورتِ حال مسائل اور تضادات سے بھری ہوئی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل کی راہیں بند ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے پاس آج بھی وہ وسائل، صلاحیتیں اور عوامی وابستگی موجود ہے جو اسے ایک حقیقی اسلامی ریاست اور تہذیب کی شکل دے سکتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم درست سمت کا تعین کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔
نظریاتی بنیاد کی تجدید
پاکستان کا سب سے پہلا اور بنیادی امکان یہ ہے کہ اپنی اصل نظریاتی بنیاد کی طرف واپس آیا جائے۔
اسلام کو محض ایک علامت کے طور پر نہیں بلکہ نظامِ زندگی کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
دو قومی نظریہ اور قراردادِ مقاصد کو محض تاریخی یادگار نہیں بلکہ عملی رہنما خطوط سمجھا جائے۔
عوام اور نوجوان نسل کو یہ یقین دلایا جائے کہ پاکستان کا مقصد آج بھی اسلام کا غلبہ اور عدل کا قیام ہے۔
ریاستی اصلاحات
ریاست کو اپنے ڈھانچے اور پالیسیوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
دستور اور قانون ۔ قرآن و سنت کی بالادستی کو حقیقتاً نافذ کیا جائے۔
نظامِ عدل ۔ عدلیہ کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے تاکہ ہر شہری کو بروقت اور سستا انصاف ملے۔
انتظامیہ ۔ اداروں کو کرپشن اور گروہی مفادات سے پاک کر کے امانت اور دیانت کے اصولوں پر استوار کیا جائے۔
قیادت ۔ ایسی قیادت کو سامنے لایا جائے جو اخلاص اور قربانی کی بنیاد پر عوامی خدمت کرے۔
تہذیبی اصلاحات
پاکستانی تہذیب کو محفوظ رکھنے اور فروغ دینے کے لئے چند اہم اقدامات ناگزیر ہیں
تعلیم ۔ نصاب کو یکساں بنایا جائے تاکہ نئی نسل کو ایک واضح اسلامی اور قومی شناخت ملے۔
میڈیا ۔ اسلامی اقدار اور قومی ورثے کو اجاگر کرنے والا میڈیا فروغ دیا جائے۔
ثقافت ۔ فنونِ لطیفہ اور ادب کو اسلامی روح کے ساتھ ترقی دی جائے تاکہ وہ قوم کو بیدار کریں نہ کہ گمراہ۔
عوامی شعور اور افرادی قوت
اسلامی ریاست کے قیام میں سب سے اہم کردار عوامی شعور کا ہے۔
مساجد، مدارس اور تعلیمی ادارے عوام کو اسلام کی اجتماعی روح سے آگاہ کریں۔
سماجی تنظیمیں اور تحریکیں عوام میں قربانی اور خدمت کے جذبات کو بیدار کریں۔
ایک ایسی مخلص جماعت تیار کی جائے جو مکی دور کی تربیت یافتہ جماعت کی طرح اخلاص، صبر اور استقامت کی بنیاد پر قوم کی رہنمائی کرے۔
یہ جماعت ہی وہ قوت فراہم کرے گی جو اسلامی ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنائے گی۔
بین الاقوامی تناظر
پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی اپنے نظریاتی کردار کو اجاگر کرنا ہوگا۔
امتِ مسلمہ کی رہنمائی اور اتحاد میں فعال کردار ادا کیا جائے۔
مغرب کے ساتھ تعلقات کو برابری اور عزت کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔
اپنی تہذیبی شناخت کو عالمی سطح پر فخر کے ساتھ پیش کیا جائے۔
خلاصہ
پاکستان کے لئے امکانات روشن ہیں اگر وہ اپنی اصل نظریاتی بنیاد پر واپس آئے اور ریاست، معاشرت اور تہذیب میں اصلاحی اقدامات کرے۔ سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ایک تربیت یافتہ اور مخلص جماعت تیار کی جائے جو اسلامی انقلاب کی قیادت کر سکے۔ عوام کے شعور اور قیادت کی اخلاص پر مبنی محنت کے ذریعے پاکستان کو وہ مقام دیا جا سکتا ہے جو اس کے قیام کا اصل مقصد تھا۔
نتائج
اس مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کا قیام محض سیاسی یا جغرافیائی واقعہ نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی اور تہذیبی جدوجہد کا حاصل تھا۔ مسلمانوں نے برصغیر میں اپنی جداگانہ شناخت کو محفوظ رکھنے اور اسلام کے اصولوں پر زندگی گزارنے کے لئے ایک علیحدہ ریاست حاصل کی۔ مگر قیام کے بعد سے آج تک پاکستان اپنی اصل نظریاتی منزل کی طرف پوری طرح پیش رفت نہ کر سکا۔
پاکستان کی بنیاد
پاکستان کی بنیاد اسلام کے نظریے پر رکھی گئی تھی۔
بانیانِ پاکستان کے اقوال اور قراردادِ مقاصد اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ ملک اسلام کے اصولوں کے نفاذ کے لئے بنایا گیا۔
ریاستی سطح پر اسلام کے اصولوں کے نفاذ کی حقیقت
آئین میں اسلام کو تسلیم کیا گیا، مگر عملی نظام زیادہ تر نوآبادیاتی ورثے پر قائم رہا۔
حکمران طبقے نے اسلام کو اکثر نعرہ بنایا لیکن عملی اقدامات کمزور رہے۔
عوامی وابستگی
عوام نے ہمیشہ اسلام کو پاکستان کے لئے بنیاد مانا اور ہر تحریک میں اسی جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔
لیکن ریاستی سطح پر اسلام کے ادھورے نفاذ نے عوام کو مایوس بھی کیا۔
تہذیبی تناظر
پاکستان کی معاشرت اور ثقافت کی جڑیں اسلامی ہیں۔
مگر جدید چیلنجز جیسے سیکولر رجحانات، انتہا پسندی اور مغربی اثرات نے تہذیبی بحران پیدا کر دیا۔
سب سے بڑا مسئلہ
سب سے بڑی کمزوری قیادت کا بحران اور ایک منظم، مخلص جماعت کی کمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کا نظریہ دستاویزات اور عوامی جذبات میں تو زندہ ہے، مگر عملی نظام میں پوری طرح غالب نہیں ہو سکا۔
خلاصہ
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی روح اسلام ہے۔ لیکن اس نظریے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے لئے ہمیں نئے عزم، قیادت اور اجتماعی شعور کی ضرورت ہے۔ مستقبل کے امکانات روشن ہیں، بشرطیکہ ہم اپنی بنیادوں کی طرف لوٹیں اور اسلام کو حقیقی معنوں میں نظامِ حیات کے طور پر نافذ کریں۔
سفارشات
پاکستان کو اس کے حقیقی نظریاتی مقام تک پہنچانے کے لئے چند بنیادی سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی اور بنیادی سفارش وہی ہے جو ہر دوسری سفارش کی بنیاد اور ضامن ہے۔
مخلص افرادی قوت و جماعت کی تیاری
اسلامی ریاست کا قیام محض حکومتی فیصلوں یا عوامی نعروں سے ممکن نہیں۔ اس کے لئے ایک ایسی مخلص افرادی قوت و جماعت کی ضرورت ہے جو ایمان، اخلاص، صبر اور قربانی میں مکی دور کے صحابہ کی طرح تربیت یافتہ ہو۔
یہی جماعت عوامی شعور کو بیدار کرے گی۔
یہ قیادت اسلامی انقلاب کا بوجھ اٹھائے گی۔
یہی وہ راستہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں اختیار کیا اور جس کے بغیر کوئی پائیدار اسلامی ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔
اسکی ابتداء اپنی افرادی قوت کی تعلیم، تربیت اور ترقی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہمیں بحثیت قوم افرادی قوت کی تعلیم، تربیت و ترقی کی ایک نئے سرے سے بنیاد رکھنی پڑے گی (ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ) جس کا مقصد مخلص عوام اور ایک مخلص قیادت کا حصول ہو۔
نظریاتی تعلیم کی مرکزیت
نصابِ تعلیم میں اسلام کو محض ایک مضمون کے طور پر نہیں بلکہ زندگی کی بنیاد کے طور پر شامل کیا جائے۔
عصری اور دینی علوم میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ ایک متوازن نسل تیار ہو سکے۔
نوجوانوں میں اسلامی تاریخ، عقیدہ اور تہذیبی شعور اجاگر کیا جائے۔
ریاستی اصلاحات
دستور کی اسلامی دفعات کو محض کاغذی حیثیت کے بجائے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے۔
قانون سازی کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے مستقل ادارہ جاتی کوشش کی جائے۔
عدلیہ اور انتظامیہ کو اسلامی اصولوں پر استوار کر کے عدل و شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کا فروغ
میڈیا، ادب اور آرٹ کو اسلامی اقدار کے ترجمان کے طور پر استعمال کیا جائے۔
مغربی تہذیبی یلغار کا مقابلہ محض ردّعمل سے نہیں بلکہ ایک مثبت اسلامی ثقافتی پروگرام کے ذریعے کیا جائے۔
عوامی تقریبات اور قومی علامتوں میں اسلامی ورثے کو اجاگر کیا جائے۔
عوامی شعور اور کردار سازی
مساجد، تعلیمی ادارے اور سماجی تنظیمیں عوامی شعور کو بیدار کرنے کے مراکز بنیں۔
عام شہری کو یہ سمجھایا جائے کہ اسلامی ریاست کے قیام میں اس کا ذاتی کردار کیا ہے۔
خود احتسابی، دیانت اور ایثار کی تربیت عام کی جائے تاکہ معاشرتی بنیاد مضبوط ہو۔
بین الاقوامی کردار
پاکستان کو امتِ مسلمہ کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عالمی سطح پر اپنی اسلامی شناخت کو فخر کے ساتھ پیش کیا جائے۔
خارجہ پالیسی کو عزت، خودمختاری اور امت کی خیرخواہی کے اصولوں پر استوار کیا جائے۔
اختتامی کلمات
پاکستان ایک امانت ہے جو اللہ نے ہمیں اسلام کے نفاذ کے لئے دی ہے۔ اس امانت کی ادائیگی کے لئے سب سے پہلے ایک مخلص، سرفروش جماعت کی تیاری ناگزیر ہے۔ پھر تعلیم، ریاستی اصلاحات، تہذیبی مضبوطی اور عوامی کردار سازی کے ذریعے وہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے جس کے لئے پاکستان وجود میں آیا تھا۔



