صراطِ مستقیم — انسان کی پیدائش سے عادت تک کا تہذیبی و روحانی سفر

یہ مضمون سیدھا راستہ کے تصور کو مقصدِ تخلیق، عہدِ اَلست، جدید عالمی نظاموں کے خلا، انسانی گمراہی، اور معاشروں سے فرد تک واپسی کے مکمل سلسلے کی صورت میں بیان کرتا ہے


صراطِ مستقیم — انسان کی پیدائش سے عادت تک کا تہذیبی و روحانی سفر

انسان کی کہانی عجیب بھی ہے اور دلکش بھی۔ دنیا کی ہر تہذیب، ہر فکر اور ہر صدی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ انسان اپنی راہ کھونے سے پہلے اپنے دل کو کھو دیتا ہے۔ راستہ ہمیشہ پاؤں سے نہیں بگڑتا؛ اکثر دل سے بھٹک جاتا ہے۔ جب دل کی سمت بدلتی ہے تو قدم بھی بدل جاتے ہیں اور جب قدم بدلتے ہیں تو آخرکار تہذیبوں کے نقش بھی بدل جاتے ہیں۔

اسی انسانی کہانی کے بیچوں بیچ ایک روشن تعبیر صدیوں سے جگمگا رہی ہے—
صراطِ مستقیم
وہ راستہ جو نہ صرف خدا کی طرف جاتا ہے بلکہ انسان کو خود اس کے گم شدہ معنوں تک لوٹا لاتا ہے۔

یہ راستہ کسی سڑک کا نام نہیں، یہ دراصل انسان کے باطن میں کھنچی ہوئی ایک پاکیزہ لکیر ہے— سیدھی، روشن، اور ازل سے ابد تک بے بدل۔


۱۔ ابتداء کا نور: راستے سے پہلے مقصد

ہر سفر ایک سوال سے شروع ہوتا ہے۔
راستہ تلاش کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ سفر کیوں ہے۔

انسان محض حادثاتی مخلوق نہیں، نہ وہ کائنات کے بے نظم گرداب میں بہتا ہوا ایک ذرّہ ہے۔ وہ ارادے اور حکمت سے تخلیق کیا گیا ہے۔
اسے شعور دیا گیا، ضمیر عطا ہوا، اور انتخاب کی آزادی بھی… لیکن اس آزادی کا مفہوم بھی اس کی ذمہ داری جتنا ہی گہرا ہے۔

قرآن مجید ہمیں سورۂ فاتحہ میں سب سے پہلے جو دعا سکھاتا ہے وہ یہی ہے:
“ہمیں سیدھا راستہ دکھا”
گویا سفر کی ابتدا دعا سے ہوتی ہے، اور دعا ہمیشہ مقصد کو ظاہر کرتی ہے۔

انسان کی تخلیق کا مقصد کسی عقیدے کی لکیر نہیں، ایک دھڑکتے ہوئے سچ کی طرح ہے—
اپنے رب کو پہچاننا، اپنے کردار کو سنوارنا، اور زمین پر خیر اور عدل کا چراغ بننا۔


۲۔ گمراہی کا آغاز: بڑی تباہیاں چھوٹے دراڑوں سے پیدا ہوتی ہیں

انسان ایک دن میں نہیں بگڑتا، اور نہ قومیں ایک لمحے میں تباہ ہوتی ہیں۔
دل کی دنیا میں اندرونی خاموشی سے ایک چھوٹا سا بگاڑ جنم لیتا ہے—
خواہشوں کی بے لگامی، نیتوں کی آلودگی، یا معمولی بے احتیاطی—
پہلے قدم ڈگمگاتے ہیں، پھر نظریات، پھر رویّے، پھر ادارے، اور آخرکار پوری تہذیب۔

یہ بگاڑ دائروں میں پھیلتا ہے:

فرد → کردار → گھرانہ → معاشرہ → ادارے → ریاست → عالمی اجتماع

جب انسان اپنے مقصد سے غافل ہوتا ہے تو معاشرے اپنے اصولوں سے، ادارے اپنے عدل سے، اور ریاستیں اپنے وقار سے محروم ہو جاتی ہیں۔


۳۔ صراطِ مستقیم کی واپسی: ایک سلسلہ، کوئی چھلانگ نہیں

واپسی ایک شور انگیز عمل نہیں بلکہ ایک خاموش جاگرتی ہے۔

الف۔ دل کی طرف واپسی

سب سے پہلے انسان خود سے سوال کرتا ہے:
میں کون ہوں، میں کیا بن گیا ہوں اور میں کیا بننا چاہتا ہوں؟

یہ سوال اصلاح سے زیادہ بیداری پیدا کرتا ہے۔
یہی پہلا قدم ہے، یہی روشنی کی ابتداء۔

ب۔ اخلاق کا احیاء

جب دل سنبھلتا ہے تو اخلاق اپنی اصل چمک واپس حاصل کرتے ہیں۔
سچائی بوجھ نہیں رہتی، راحت بن جاتی ہے۔
عدل ایک اصول نہیں بلکہ سکون بن جاتا ہے۔
رحم کمزوری نہیں، طاقت محسوس ہوتا ہے۔

ج۔ کردار سے معاشرے تک

انسان صرف فرد نہیں، وہ اپنے اردگرد کی دنیا کا مرکز ہے۔
ایک سچا شخص ایک خاندان کو روشن کرتا ہے،
ایک خاندان ایک محلے کو،
اور محلے پوری تہذیبوں کے لہجے بدل دیتے ہیں۔

د۔ ادارے لوگوں سے بنتے ہیں

کسی ادارے کا دستور کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو،
اگر اسے چلانے والوں کے دل میں خدا کا خوف اور انسان کی عزت نہ ہو
تو ادارے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔

ہ۔ ریاستیں عدل پر قائم رہتی ہیں

ریاست محض سرحدوں اور عمارتوں کا نام نہیں؛
یہ اخلاقی اقدار کا مجموعہ ہے۔
عدل اس کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور امانت اس کی سانس۔

و۔ عالمی برادری اور انسانی روح

جب افراد سیدھے ہو جائیں تو قومیں سیدھی ہوتی ہیں،
اور جب قومیں سیدھی ہوں تو دنیا میں انسانیت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے۔


۴۔ جدید دنیا سے سوال: ترقی کی میز پر روح کی کرسی کہاں ہے؟

یہاں دنیا کے عالمی ڈھانچے اور ترقی کے منصوبے — جیسے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی اہداف (SDGs) — خودبخود بحث میں آتے ہیں، کیونکہ یہ انسانیت کی فلاح کے اجتماعی وعدے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

بھوک مٹانا، تعلیم عام کرنا، عدم مساوات ختم کرنا —
یہ سب عظیم اہداف ہیں اور ان کی اہمیت سے انکار نہیں۔

لیکن ایک گہرا سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے:

اگر انسان کی روح بھوکی رہ جائے تو کیا دنیا کی بھوک واقعی مٹ سکتی ہے؟
اگر کردار ٹھیک نہ ہو تو تعلیم کیا دے گی؟
اگر دل میں کرم نہ ہو تو ادارے انصاف کیسے کریں گے؟

دنیا نے ترقی کا نقشہ تو بنایا ہے،
مگر انسان کی روح کے لیے کوئی عالمی نقشہ اب تک وجود میں نہیں آیا۔
یہ خلا شاید جدید تہذیب کی سب سے بڑی خاموش کمزوری ہے۔

اس لیے سوال یہ نہیں کہ اقوامِ متحدہ سب کچھ کرے—
سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت اپنی مجموعی ترقی میں روح کو بھی شریک کرے گی؟


۵۔ صراطِ مستقیم کا آخری پڑاؤ: مقصد سے عادت تک

اعلیٰ ترین مقصد بھی اس وقت بے اثر ہو جاتا ہے جب وہ انسان کی زندگی کے معمولات میں اتر نہ سکے۔

دنیا کے بڑے نظام تب درست ہوتے ہیں جب انسان کے چھوٹے کام درست ہوں۔
ایک شخص جو وقت کا پابند نہیں، وہ قوم کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرے گا؟
ایک شخص جو بازار میں ایماندار نہیں، وہ ریاست میں اصلاح کیسے لائے گا؟
ایک شخص جو روزمرہ کے معاملات میں عدل کا خیال نہیں رکھتا،
وہ عالمی امن کی بات کیسے کرے گا؟

اصلاح کا پہلا ہتھیار عادت ہے:

  • سچ بولنے کی عادت

  • امانت داری کی عادت

  • کم کھانے، کم بولنے، زیادہ غور کرنے کی عادت

  • بندوں سے نرمی، اپنے نفس سے سختی کی عادت

  • حق پر قائم رہنے کی عادت

  • شکر گزار رہنے کی عادت

یہ وہ چھوٹے چراغ ہیں جو بڑے اندھیروں کو شکست دیتے ہیں۔


اختتام: انسان کا طویل مگر روشن سفر

ہر انسان کے دل میں ایک اندرونی قطب نما ہوتا ہے۔
کبھی دھندلا جاتا ہے، کبھی بجھنے لگتا ہے، مگر بجھتا نہیں۔
صراطِ مستقیم دراصل اسی قطب نما کی درست سمت ہے —
ایک یاد دہانی، ایک صدا، ایک روشن راستہ جو انسان کو اپنے رب کی طرف بھی لے جاتا ہے اور خود اس کی اصل تک بھی۔

واپسی کا سفر شور سے نہیں ہوتا۔
یہ آہستگی، گہرائی اور مسلسل بیداری کا سفر ہے۔
یہ وہ راستہ ہے جہاں مقصد کردار بنتا ہے،
کردار تہذیب بنتا ہے،
اور تہذیب انسانیت کے لیے رحمت۔

صراطِ مستقیم کوئی سڑک نہیں،
یہ انسان کا مقدر ہے —
اور ہر قدم جو اللہ کی معرفت، اخلاق کی بلندی اور انسانیت کی خدمت کی طرف بڑھتا ہے
وہ اسی راستے کی طرف بڑھتا ہے۔