قدرتی آفات کی تخلیق نو

گلگت بلتستان کا ماحولیاتی بحران محض فطرت کی قہرمانی نہیں بلکہ انسانی خودغرضی، حکومتی بے عملی، اور اقربائی سرمایہ داری کے امتزاج کا نتیجہ ہے—یہ مضمون بتاتا ہے کہ کیسے "قدرتی آفات" دراصل ایک منصوبہ بند تخلیق نو بن چکی ہیں۔

قدرتی آفات کی تخلیق نو: گلگت بلتستان میں ریاستی نظام، اقربائی سرمایہ داری اور ماحولیاتی بربادی

تعارف

گلگت بلتستان، جو فطری حسن، گلیشیئرز، اور آبی ذخائر کا خزانہ ہے، قدرتی آفات کی تخلیق نو کے باعث  آج خطرناک ماحولیاتی اور سماجی بحران کی زد میں ہے۔ اس بحران کی جڑیں قدرتی نہیں، بلکہ انسانی ہیں—خاص طور پر ریاستی گورننس کی ناکامی، اقربائی سرمایہ داری کی پیش قدمی، اور مقامی علم و روایت کی دانستہ پامالی۔ اس مضمون میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کس طرح حکومتی و نجی گٹھ جوڑ اس خطے کو قدرتی آفات کی نذر کر رہا ہے اور کیسے اس عمل کو

“آفات کی تخلیق نو” کہا جا سکتا ہے۔

Gilgit-Baltistan (/ˌɡɪlɡɪt ˌbɔːltɪˈstɑːn, stæn/Urduگِلْگِت بَلْتِسْتان listen),[a] formerly known as the Northern Areas,[10] is a region administered by Pakistan as an administrative territory and consists of the northern portion of the larger Kashmir region, which has been the subject of a dispute between India and Pakistan since 1947 and between India and China since 1959.[1] It borders Azad Kashmir to the south, the province of Khyber Pakhtunkhwa to the west, the Wakhan corridor of Afghanistan to the north, the Xinjiang region of China to the east and northeast, and the Indian-administered union territories of Jammu and Kashmir and Ladakh to the southeast.

 گلگت بلتستان کی فطری معصومیت اور انسانی مداخلت

گلگت بلتستان کو قدرت نے خوبصورتی، پانی، معدنیات اور ماحولیاتی توازن سے نوازا ہے۔ لیکن یہی خطہ آج ان عناصر کی بدولت خطرے میں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ فطرت کی بے رحمی کے بجائے انسان کی منصوبہ بند خود غرضی ہی اصل آفت بن چکی ہے۔

قدرتی آفات: کیا یہ واقعی قدرتی ہیں؟

ظاہری طور پر سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، گلیشیئر پگھلنے، اور ماحولیاتی انحطاط کو قدرتی آفات سمجھا جاتا ہے، مگر جب ان آفات کے پیچھے انسانی فیصلے، غلط منصوبہ بندی، طاقتور طبقات کی ذاتی دلچسپی اور حکومتی ناکامی شامل ہوں، تو یہ “قدرتی” نہیں رہتیں، بلکہ “مصنوعی قدرتی آفات” بن جاتی ہیں۔

نظام حکومت: خاموش شراکت دار

گلگت بلتستان کی گورننس ایک ایسے بے اختیار، غیر آئینی اور غیر شفاف ڈھانچے میں جکڑی ہوئی ہے جو نہ مقامی عوام کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے اور نہ ہی ماحولیاتی ضابطوں کی پاسداری کرتا ہے۔

نفع کا لالچ، ماحولیاتی تباہی
نفع کا لالچ، ماحولیاتی تباہی

اقربائی سرمایہ داری: نفع کا لالچ، ماحولیاتی تباہی

“اقربائی سرمایہ داری” یعنی crony capitalism کے ذریعے اثرورسوخ رکھنے والے افراد اور ادارے گلگت بلتستان میں ایسے منصوبے نافذ کرتے ہیں جو نہ صرف فطرت کے اصولوں سے متصادم ہوتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے مفادات کو روندتے ہیں۔

مثالیں: شواہد جو چیخ چیخ کر بولتے ہیں

شاہراہ قراقرم: تتہ پانی کی موت خیز گزرگاہ

تتہ پانی کے خطرناک پہاڑی راستے کو شاہراہ قراقرم کا حصہ بنانا ایک ایسا فیصلہ تھا جس میں عوامی تحفظ کے بجائے ذاتی زمینوں اور کاروباری مفاد کو ترجیح دی گئی۔

لیکسس ہوٹل: جھیل کنارے موت کا کھیل

عطا آباد جھیل کے دہانے پر، بروندو نالے کے بالکل منہ پر ایک لگژری ہوٹل کی تعمیر ایک مجرمانہ غفلت ہے۔ ہر سال سیلاب اس ہوٹل کو گھیر لیتا ہے، مگر نہ حکومت کچھ کرتی ہے اور نہ ہوٹل مالکان باز آتے ہیں۔

آئینی و قانونی خلا: استحصال کا دروازہ

گلگت بلتستان کی سب سے بڑی بدقسمتی اس کی آئینی بے حیثیتی ہے۔ نہ مکمل صوبہ، نہ مکمل خودمختار علاقہ۔ اس برزخ کی صورت حال نے اسے ریاستی اور کاروباری طبقات کی چراگاہ بنا دیا ہے۔

نتیجہ: تباہی کو ترقی سمجھنے کا فریب

ریاستی اداروں اور سرمایہ داروں کی مشترکہ غفلت اور خود غرضی نے قدرتی آفات کو معمول بنا دیا ہے۔ یہ آفات منصوبہ بند “تخلیق نو” ہیں—جو پورے معاشرے کو نگل رہی ہیں۔

تجاویز: بچاؤ کی سمت

ایک خودمختار ماحولیاتی واچ ڈاگ ادارہ قائم کیا جائے۔

خطرناک ہوٹلوں، منصوبوں کی فہرست جاری کی جائے۔

سیاحتی اخلاقیات کا فروغ ہو تاکہ عوامی شعور بڑھے۔

رواجی و مقامی علم کو فیصلوں میں شامل کیا جائے۔

گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دی جائے تاکہ خود اختیاری حاصل ہو۔

آخری بات

اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو آنے والی نسلیں صرف خوبصورتی کے قصے سنیں گی، اور باقی رہ جائے گا سرمایہ، سیمنٹ اور تباہی۔

https://mrpo.pk/public-interest-pakistan-equitable-governance-pakistan-islamic-jurisprudence-maslaha-public-interest-litigation/