- ریحان فضل
- بی بی سی ہندی، دہلی
5 دسمبر 2020
ذوالفقار علی بھٹو نے جیسے ہی صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا انھوں نے صدر یحییٰ خان کو ان کے مکان میں نظر بند کر دیا اور جنرل گل حسن سے فوج کی قیادت سنبھالنے کے لیے کہا۔
اس کے بعد انھوں نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے 44 سینیئر افسران کو یہ کہتے ہوئے برخاست کر دیا کہ ‘وہ موٹے ہو گئے ہیں اور ان کا پیٹ باہر آ گیا ہے۔‘
مشرقی پاکستان میں شکست پاکستانی فوج کو بیک فٹ پر لے آئی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔
کچھ ہی دنوں کے بعد جنرل گل حسن بھی ان کے دل سے اتر گئے اور انھیں ایک ایسے چیف کی ضرورت پڑ گئی جو آنکھیں موند کر ان کے ہر حکم کو بجا لائے۔
چھیالیس سال قبل ہونے والا ایک قتل جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ بنا
اوون بینِٹ جونز نے اپنی کتاب ‘دی بھٹو ڈائنیسٹی سٹرگل فار پاور ان پاکستان’ میں لکھا ہے کہ ‘بھٹو نے گل حسن کو برخاست کرنے کا حکم اپنے سٹینوگرافر کے بجائے اپنے ایک سینیئر ساتھی سے ٹائپ کروایا۔ جنرل گل حسن کی برخاستگی کے حکم کے بعد انھوں نے اپنے قابل اعتماد ساتھی غلام مصطفی کھر سے جنرل گل حسن کے ساتھ لاہور جانے کو کہا تاکہ گل حسن سے اس وقت تک کوئی رابطہ نہ ہو جب تک کہ ان کے جانشین کی تقرری کا حکم جاری نہ ہو جائے۔
‘اس فیصلے کی مخالفت کرنے والے ممکنہ عہدیداروں کو ایک فرضی اجلاس کے لیے طلب کیا گیا اور انھیں اس وقت تک وہاں رکھا گیا جب تک کہ گل حسن کا استعفیٰ نہیں لے لیا گیا۔ ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنوں پر پولیس تعینات کر دی گئی اور پیپلز پارٹی نے راولپنڈی میں ایک عوامی جلسہ اس مقصد کے ساتھ منعقد کیا کہ کہیں صدر بھٹو کو اس معاملے میں عوامی حمایت کی ضرورت نہ پڑ جائے۔’
گل حسن کے بعد بھٹو نے اپنے قابل اعتماد جنرل ٹکہ خان کو پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
جلال الدین رحیم کی پٹائی
کچھ ہی مہینوں میں بھٹو کا تکبر اتنا بڑھ گیا کہ انھوں نے پارٹی کے سینیئر ساتھیوں کی بھی توہین شروع کر دی۔
بھٹو کی سوانح عمری ‘زلفی بھٹو آف پاکستان’ میں سٹینلے وولپرٹ نے لکھا: ‘2 جولائی 1974 کو بھٹو نے صدارتی امور کے وزیر جلال الدین عبد الرحیم یا جے رحیم اور متعدد سینیئر ساتھیوں کو عشائیہ پر مدعو کیا۔ عشائیے کا وقت آٹھ بجے تھا لیکن میزبان بھٹو خود وہاں نہیں پہنچے۔
‘جب رات کے بارہ بجے گئے تو رحیم نے اپنا گلاس میز پر رکھا اور چیخ کر کہا ‘تم سب چمچے جب تک چاہو اس وقت تک لاڑکانہ کے مہاراج کا انتظار کرو، میں تو اپنے گھر جارہا ہوں۔’ جب بھٹو ضیافت پر پہنچے تو حفیظ پیرزادہ نے انھیں رحیم کے سلوک کے بارے میں بتایا۔ ‘دیر رات گئے وزیر اعظم کی سکیورٹی کے سربراہ نے رحیم کے گھر جا کر انھیں اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ جب رحیم کے بیٹے سکندر نے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اسے بھی مارا پیٹا گیا۔’
ٹکا خان کی رائے کے خلاف ضیا کو ترجیح
جب ٹِکا خان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو انھوں نے بھٹو کو اپنے جانشین کے لیے ممکنہ سات لوگوں کی فہرست بھجوائی۔
اس میں انھوں نے دانستہ طور پر جنرل ضیاء الحق کا نام نہیں رکھا کیونکہ انھیں حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر ترقی دی گئی تھی۔ لیکن بھٹو نے انھی کے نام پر مہر ثبت کی۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ضیا نے بھٹو کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اوون بینِٹ جونز لکھتے ہیں: ‘کئی بار جنرل ضیا نے اپنے ملک اور فوج کی خدمات کے بدلے بھٹو کو تلوار پیش کی۔ ایک بار انھوں نے بھٹو کو نہ صرف آرمرڈ کور کا تنخواہ نہ لینے والا چیف کمانڈر قرار دیا بلکہ ان کے لیے فوج کی مخصوص وردی بھی سلوائی۔’
،بھٹو کی سوانح عمری میں سٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں: ’ضیا نے کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ کوئی فوجی بغاوت کر سکتے ہیں۔ بھٹو نے انھیں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ اکثر ان کے دانتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔
‘ان کے بارے میں ایک کہانی مشہور تھی کہ ایک بار ضیا سگریٹ پی رہے تھے، اسی وقت بھٹو کمرے میں داخل ہوئے۔ اس خوف سے کہ بھٹو کو اپنے سامنے سگریٹ پیتے دیکھ کر برا نہ لگے انھوں نے فوراً جلتی سگریٹ اپنی جیب میں ڈال لی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں کپڑے جلنے کی بو پھیل گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا کہ جو شخص ان سے اس قدر ڈرتا ہو وہ ان کے خلاف کیسے بغاوت کر سکتا ہے۔’
اسی دوران بھٹو حکومت کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ بھٹو کی بہترین کاوشوں کے باوجود امن و امان بحال ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔
لاہور میں تین بریگیڈیئرز نے لوگوں پر فائرنگ سے انکار کر دیا۔ ایک جگہ فوجیوں نے گولی چلانے کے حکم کی تعمیل کی لیکن انھوں نے ہجوم کے سر سے اوپر فائرنگ کی۔
اوون بینِٹ جونز لکھتے ہیں: ‘بھٹو کی سب سے بڑی غلطی اپنے مخالفین سے مذاکرات میں آرمی کور کمانڈروں کو شامل کرنا تھی۔’
وہ لکھتے ہیں: ‘بھٹو کے نقطۂ نظر سے وہ فوج کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن فوجی افسران نے انھیں دوسری نظر سے دیکھا۔ ان کے خیال میں بھٹو کے اس اقدام سے ظاہر ہوا کہ وہ کمزور ہیں اور حکومت چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔’
انتخابات میں ’گڑبڑ‘
تمام تر مخالفت کے باوجود بھٹو نے سات مارچ سنہ 1977 کو عام انتخابات کروائے۔ آنے والے انتخابی نتائج پر عام پاکستانیوں نے یقین نہیں کیا۔
بھٹو کی پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 200 میں سے 155 نشستیں ملیں جبکہ حزب اختلاف پیپلز نیشنل الائنس کو اس قدر تشہیر کے باوجود صرف 36 نشستیں ملیں۔
سنہ 1970 کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی اپنی مقبولیت کے عروج پر تھی اس وقت اسے صرف 39 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ اس انتخاب میں ان کا ووٹ 55 فیصد ہو گیا تھا۔
بھٹو کے خلاف حزب اختلاف کی بڑی انتخابی مہم کے باوجود انھیں صرف 39 فیصد ووٹ ملے۔
انتخابات کے بعد کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے کوثر نیازی اپنی کتاب ‘لاسٹ ڈیز آف پریمیئر بھٹو’ میں لکھتے ہیں: ‘وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر حفیظ پیرزادہ، رفیع رضا اور اپنے دو دوستوں کے ساتھ بھٹو بیٹھے تھے۔ پیرزادہ کی طرف دیکھ کر انھوں نے پوچھا: ‘حفیظ کتنی نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہوگی؟’ ان کا جواب تھا ‘سر 30 یا 40’ پر۔
‘بھٹو نے کہا کہ کیا ہم اپوزیشن سے ان نشستوں پر دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے نہیں کہہ سکتے؟ ہم ان سیٹوں پر ان کے خلاف اپنا امیدوار نہیں کھڑا کریں گے۔’
‘بھٹو چاہتے تھے کہ وہ لاڑکانہ سے بلامقابلہ منتخب ہوں، جبکہ ان کے مشیر رفیع رضا اس کے سخت خلاف تھے۔ بھٹو کے خلاف لڑنے والے پی این اے امیدوار کو ایک اور سیٹ لڑنے کی پیش کش کی گئی تھی اور انھیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ بلا مقابلہ جیت جائيں گے۔ انھوں نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا۔’
نتیجہ یہ ہوا کہ انھیں اغوا کر لیا گیا تاکہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی نہیں بھر سکیں۔ اوین بینِٹ جونز لکھتے ہیں کہ ‘حفیظ پیرزادہ نے انھیں بتایا تھا کہ انتخابات میں گڑبڑ اس واقعے سے شروع ہوئی تھی۔ بھٹو کو دیکھ کر پیپلز پارٹی کے 18 امیدواروں نے بھی یہ یقین دہانی چاہی تھی کہ کوئی بھی امیدوار ان کے خلاف نہ کھڑا ہو۔’
’بھٹو آخر تک ضیا کو نہ پہنچان سکے‘
پاکستان کے معروف صحافی خالد حسن نے اپنی کتاب ‘ریئر ویو مرر: فور میموائرز’ میں لکھا: ‘بھٹو کے ایک مشیر نراجہ انور نے فوجی بغاوت سے ذرا قبل بھٹو اور جنرل ٹکا خان کے مابین ایک ملاقات دیکھی تھی۔
بھٹو نے ٹکا خان سے کہا: ‘جنرل آپ کو یاد ہے آپ نے ضیا کو آرمی چیف بنانے کی مخالفت کی تھی، اب آپ کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں نے صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اگر کوئی دوسرا آرمی چیف ہوتا تو وہ امن وامان کا عذر بنا کر اب تک یہ اقتدار سنبھال چکا ہوتا ۔۔۔ سات گھنٹے بعد ضیا نے بھی وہی کیا۔‘
’جج نے پرانا حساب برابر کیا‘
گرفتاری کے بعد بھٹو پر اپنے سیاسی حریف محمد احمد خان قصوری کے قتل کا الزام عائد کیا گیا۔
سرکاری گواہ محمود مسعود نے گواہی دی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں قصوری کے قتل کا حکم دیا تھا۔
وکٹوریہ سکوفیلڈ اپنی کتاب ‘بھٹو: ٹرائلز اینڈ ایگزیکیوشن’ میں لکھتی ہیں: ‘مولوی مشتاق حسین پانچ ججوں کی بینچ کے سربراہ تھے۔ بھٹو کے ساتھ پرانی دشمنی تھی۔ جب بھٹو اقتدار میں تھے تو انھوں نے دو بار جونیئر ججوں کو ان سے پہلے پروموٹ کیا تھا۔
جج مشتاق حسین کا بھٹو سے مکالمہ: ‘ہمیں معلوم ہے کہ آپ آرام طلب زندگی گزارنے کے عادی رہے ہیں۔ اس کا خیال کرتے ہوئے ہم نے کٹہرے میں آپ کے لیے کرسی کا بندوبست کیا ہے ورنہ آپ کو عام مجرموں کی طرح بینچ پر ہی بیٹھایا جاتا۔’
‘سماعت کے دوران جب بھٹو نے عدالت میں خصوصی طور پر تعمیر شدہ کٹہرے میں بیٹھے جانے کے حکم پر برہمی کا اظہار کیا تو مشتاق حسین نے طنزیہ لہجے میں کہا ‘ہمیں معلوم ہے کہ آپ آرام طلب زندگی گزارنے کے عادی رہے ہیں۔ اس کا خیال کرتے ہوئے ہم نے کٹہرے میں آپ کے لیے کرسی کا بندوبست کیا ہے ورنہ آپ کو عام مجرموں کی طرح بینچ پر ہی بیٹھایا جاتا۔’
’ضیا نے ساری دنیا کی بات نہیں سنی‘
مشتاق نے بھٹو کو سزائے موت سنائی۔ بھٹو نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ فروری سنہ 1979 میں، سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر چار تین کے فرق سے مہر لگا دی۔
اوون بینِٹ جونز لکھتے ہیں: اس سے پہلے کبھی بھی قتل کی سازش کے مقدمے میں موت کی سزا نہیں سنائی گئی تھی اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے ججز مجرم کی سزا اور جرم کے بارے میں متفق تھے۔ اس سزا پر یہ بھی سوالات اٹھے تھے کہ ملزم کو اس وقت بھی قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا حالانکہ وہ جائے وقوع پر موجود نہیں تھا۔’
بھٹو نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی لیکن اس بنیاد پر اسے مسترد کر دیا گیا کہ اس میں یہ بحث نہیں کی گئی کہ پچھلے دو مرحلے کے فیصلے میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
روس کے صدر بریزنف، چین کے سربراہ ہوا گیوفینگ اور سعودی عرب کے شاہ خالد سمیت دنیا بھر کے متعدد رہنماؤں نے بھٹو کی سزا کو معاف کرنے کی اپیل کی۔
برطانیہ کے وزیر اعظم جیمز کلیگھن نے جنرل ضیا کو تین خط لکھے جس میں ایک خط کے آخر میں انھوں نے لکھا: ‘بطور فوجی آپ کو ایک پرانی بات یاد ہو گی کہ میدان جنگ میں تو گھاس بہت جلدی آگ پکڑتی ہے لیکن تختہ دار پر کبھی نہیں۔’ (پاکستان: دی کیس آف مسٹر بھٹو، نیشنل آرکائیو آف یو کے، ایف سی او 37/2195)
لیکن ضیا نے بھٹو کو پھانسی دینے کا ارادہ کر لیا تھا۔ آخر میں معاملہ رحم کی درخواست تک پہنچا۔
پاکستان میں یہ ضروری نہیں کہ مجرم یا اس کے اہل خانہ کی طرف سے صدر کے پاس رحم کی التجا کی جائے لیکن پھر بھی اس خیال کے تحت کہ کہیں ضیا یہ بہانہ بنا کر بھٹو کو پھانسی نہ دے دیں کہ ان کے اہل خانہ نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا بھٹو کی ایک بہن شہربانو امتیاز کی جانب سے رحم کی اپیل کی گئی۔
یکم اپریل سنہ 1979 کو شام کو جنرل ضیا نے سرخ روشنائی میں تین الفاظ لکھے: ’پٹیشن از ریجیکٹیڈ‘ یعنی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔
موجودہ حالت کے تناظر میں حکومتی کارپدازوں سنجیدگی سے سے حالات میں جلد فیصلے پر پھنچ جانا چاھیے۔لیکن اس میں بھی کوئ دو راے نھیں کہ انسان ماضی کی غلطیوں سےسبق نھیں سیکھتا کیونکہ میں بھت عقلمند ھوں سب کچھ سنبھال لوں گا۔