صراطِ مستقیم — انسان کی پیدائش سے عادت تک کا تہذیبی و روحانی سفر
انسان کی کہانی عجیب بھی ہے اور دلکش بھی۔ دنیا کی ہر تہذیب، ہر فکر اور ہر صدی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ انسان اپنی

﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُم﴾
“کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” (الاعراف 7:172)
اور اُس نے جواب دیا
﴿قَالُوا بَلٰی﴾
“بے شک، کیوں نہیں!”
یہ وہ پہلا عہد ہے جو روح نے اپنے خالق سے باندھا۔ یہ وہ بنیادی سمت ہے جسے قرآن ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتا ہے۔ بعد میں انسان اس دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا گیا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ اس عہد کی کتنی پاسداری کرتا ہے—اور کس درجے پر اس سلسلے کو توڑ دیتا ہے۔
انسان نے زمین کو آباد کیا، علم و ہنر سیکھے، ریاستیں بنائیں، قوانین وضع کیے، ادارے قائم کیے، صنعتیں کھولیں، معیشتیں چلائیں، اور طرزِ زندگی کے بے شمار سانچے تراشے۔
مگر سوال آج بھی وہی ہے:
ان سب سطحوں پر کس کا حکم چلتا ہے؟ انسان کا… یا اُس رب کا جس سے اُس نے ابدی عہد کیا تھا؟
اسی سوال کا جواب ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی مکمل حقیقت ہے۔
عہدِ اَلَسْت — انسان کی اصل سمت
قرآن انسانی زندگی کی بنیاد اسی عہد پر قائم کرتا ہے:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ… اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ﴾
(الاعراف 7:172)
یہ اعلان کرتا ہے کہ:
انسان مالک نہیں، مکلف ہے۔
مقصدِ تخلیق اللہ کی عبادت اور اطاعت ہے (الذاریات 51:56)۔
رہنمائی اللہ کی ذمہ داری ہے—اسی لیے سورۃ الفاتحہ کی پہلی دعا:﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾یہ تین نقطے انسانی زندگی کی ’’الٰہی ساخت‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔
صراطِ مستقیم — الٰہی ساخت کا نام
صراطِ مستقیم کوئی محض اخلاقی راستہ نہیں، یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو انسانی وجود کو اس کے ہر درجے میں ’’عہدِ الست‘‘ کے تابع کرتا ہے۔
صراطِ مستقیم
وہ راستہ جس میں انسانی زندگی کے تمام طبقات اللہ کے مقرر کردہ حدود کے اندر سیدھی صف میں آ جائیں۔
اس قوس کے بڑے درجے قرآن یوں ترتیب دیتا ہے:
-
ایمان اور عہد
-
ہدایت اور دین
-
شریعت اور قانون
-
ریاست اور حکمرانی
-
ادارے اور پالیسی سازی
-
طریقہ کار اور SOPs
-
طریقۂ کار کے اندر شخصیت کی اخلاقیات
-
اور آخر میں—انسان کی انفرادی عادات
جہاں یہ قوس ٹوٹتی ہے، وہاں ’’صراط‘‘ سے انحراف شروع ہو جاتا ہے۔
دین کی ساخت — ایمان سے نظام تک ایک مسلسل زنجیر
قرآن انسانی زندگی کے لیے جو نظام تجویز کرتا ہے وہ ’’مرحلہ وار‘‘ ہے
ایمان: عہد کی یاد دہانی
ایمان انسان کے اندر وہ شعور زندہ کرتا ہے جو عہدِ الست میں اس نے دیا تھا۔
دین: اس شعور کا سماجی اظہار
دین وہ مجموعہ ہے جو زندگی کے اصول طے کرتا ہے—
توکل، عدالت، امانت، اطاعتِ الٰہی، حدود، حلال و حرام۔
شریعت: دین کی قانونی شکل
یہ وہ منزل ہے جہاں الٰہی احکام قوانین بن کر اجتماعی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔
ریاست: شریعت کی عملی تعبیر
ریاست وہ مشینری ہے جو عدل، حقوق، نظم و امن اور اخلاقی ضابطوں کو نافذ کرتی ہے۔
ادارے: ریاستی عمارت کے ستون
تعلیم، عدلیہ، داخلہ، خارجہ، معیشت، صحت—سب کو الٰہی اصولوں کے مطابق چلنا ہے۔
SOPs اور طریقہ کار: عملی سطح پر صراطِ مستقیم
یہاں اسلام کا اصل حسن ظاہر ہوتا ہے
ہر فارم، ہر پالیسی، ہر چیک لسٹ، ہر آڈٹ، ہر طریقۂ کار
اخلاق، ایمانداری، انصاف اور حدود کے تابع ہوتا ہے۔
عادات: صراطِ مستقیم کی آخری منزل
عادات وہ جگہ ہیں جہاں انسان خدا کی اطاعت کو روزمرہ زندگی میں ڈھالتا ہے
سچ بولنا، امانت داری، وقت کی پابندی، حلال و حرام کا خیال، صفائی، وقار، تحمل اور بندگی۔
کہاں سے انحراف شروع ہوتا ہے؟
انسان کی گمراہی کسی ایک بڑے فیصلے سے نہیں ہوتی؛
وہ وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں یہ لمبی قوس ٹوٹتی ہے۔
درجۂ 1: اگر عہدِ الست بھلا دیا جائے
تو دین محض رسم رہ جاتا ہے۔
درجۂ 2: اگر دین کمزور ہو جائے
تو شریعت بے وزن ہو جاتی ہے۔
درجۂ 3: اگر شریعت نظرانداز ہو
تو ریاست انسان کے ہاتھ کی کھلونا بن جاتی ہے۔
درجۂ 4: اگر ریاست خدا کی حدود سے آزاد ہو
تو ادارے اپنی مرضی کے خداؤں کو جنم دیتے ہیں—
قانون، مفاد، پیسہ، قوم پرستی، یا انسان کا اپنا نفس۔
درجۂ 5: اگر ادارے الٰہی اصول نہ اپنائیں
تو SOPs بے روح کاغذی کارروائی بن جاتے ہیں۔
درجۂ 6: اگر SOPs میں انصاف نہ ہو
تو عادات خودغرضی، منافقت اور بے اصولی میں ڈھل جاتی ہیں۔
اب انسان بظاہر کامیاب مگر باطن میں خالی اور مقصد سے گم ہو جاتا ہے۔
: عالمی اداروں کا سوال — کیا UNO روحانی سمت دے سکتا ہے؟
یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے
جب دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی ادارہ—UNO—دنیوی فلاح کے لیے SDGs بنا سکتا ہے،
تو کیا وہ انسان کی روحانی فلاح کا خاکہ نہیں بنا سکتا؟
SDGs بھوک، غربت، صحت، ماحول جیسے مسائل کے حل کی طرف تو لے جاتے ہیں،
مگر انسان کا سب سے بنیادی بحران—
تشخص، مقصد، اخلاق اور روحانی سمت
ان کے دائرے سے باہر ہے۔
انسانی تاریخ میں کوئی نظام روحانی فلاح کا مکمل نقشہ نہیں دے سکا
سوائے اس کے جو خالق نے خود دیا۔
اسی لیے صراطِ مستقیم کا تصور دنیا کے کسی ادارے کی ذمہ داری نہیں بن سکتا—
یہ اللہ کی طرف سے ہدایت ہے
اور ہر فرد، معاشرے اور ریاست کی اپنی ذمہ داری ہے کہ اسے اپنی ساخت میں جذب کرے۔
واپسی کا راستہ — پوری قوس کی ازسرِنو سیدھ
واپسی کا راستہ فرد سے شروع ہو کر پورے نظام تک جاتا ہے:
عہد کی تجدید
’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ کو شعوری طور پر یاد کرنا۔
دین کا احیاء
علمِ دین، قرآن، سنت، اخلاق اور تقویٰ کی تربیت۔
قانون کی اصلاح
ایسے قوانین جو عدل، شفافیت اور انسانیت کے اعلیٰ معیار پر پورا اتریں۔
ریاستی سمت درست کرنا
گورننس کو انسان کی نہیں، اصولوں کی غلامی میں لانا۔
ادارہ جاتی اخلاقیات
ہر ادارے کے اندر احتساب، امانت اور عدل کو SOPs کا حصہ بنانا۔
عادات کی تربیت:ایک ایک عادت کو اللہ کی رضا کے تابع کرنا
یہ وہ مقام ہے جہاں صراطِ مستقیم عملی بن کر انسان کی شخصیت میں اترتا ہے۔
حرف آخر
صراطِ مستقیم کوئی ایک پتلی لکیر نہیں
یہ ایک روشن شاہراہ ہے جو روح سے قانون تک، ریاست سے کردار تک اور معاشرے سے عادت تک اپنا اثر چھوڑتی ہے۔
یہ وہ راستہ ہے جہاں ہر صُبح آسمان کی طرف اٹھا ہوا انسان اپنے رب سے کہتا ہے
’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم‘‘
— مجھے وہی راستہ دکھا جو میں نے ازل میں قبول کیا تھا۔
جو قومیں اس قوس کو مکمل سیدھا کر لیتی ہیں،
ان کی تاریخ بھی سیدھی ہوتی ہے،
ان کی ریاست بھی سیدھی ہوتی ہے،
اور ان کی روح بھی سیدھی ہو جاتی ہے۔
اور جو اسے توڑ دیتی ہیں
وہ راہوں کے جنگل میں بھٹکتی رہتی ہیں،
جب تک کہ ایک دن،
ان کا دل ازل کی پکار کو دوبارہ سن نہ لے۔
۔



