شکر ہے کہ عمران خان ایک خوفناک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے، جس کی کہ اُنہیں کئی ذرائع سے پہلے سے ہی خبر تھی اور وہ ناقص سیکورٹی کے باوجود لانگ مارچ کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔ واقع پیش آیا بھی تو وزیرِاعلیٰ پنجاب کے آبائی علاقے میں۔ جائے وقوع سے ملزم نوید کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پہلے کہ افواہ سازی کا بازار گرم ہوتا، ملزم کے دو اقبالی بیان بڑی سرعت سے میڈیا پرنشر بھی ہو گئے۔
جائے وقوع سے 9 خول چھوٹے پستول اور دو چھرے والے کارتوس برآمد ہوئے ہیں، جبکہ مبینہ حملہ آور اور برآمد شدہ ہتھیار ایک ہے۔ ابھی تک باقاعدہ تفتیش شروع بھی نہیں کی جا سکی کیوں کہ ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکی، جس کی بنیادی وجہ عمران خان اور پنجاب حکومت کے موقف میں کھلا تضاد ہے۔
عمران خان وزیراعظم، وزیرداخلہ سمیت تین افراد کو مبینہ سازش میں نامزد کرنا چاہتے ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی عدم شواہد کی بنیاد پر ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ وقوعہ کے حوالے سے بھی عمران خان کا موقف ہے کہ حملہ دو اطراف سے ہوا اور انہیں چار بلٹ یا چھرے لگے ہیں، جبکہ پولیس کو دوسرے حملہ آور اور دوسرے ہتھیار کی ابھی تک کوئی بھنک نہیں ملی۔ چونکہ معاملہ ہائی پروفائل سیاست کا ہے، اس لئے تمام قوتیں حرکت میں آ گئی ہیں۔ عمران خان اپنے تین مبینہ ملزموں کی برطرفی تک لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں، جبکہ آئی ایس پی آر نے پی ٹی آئی چیئرمین کے فوج مخالف اور اپنے ایک افسر کے خلاف الزامات پر سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تادمِ تحریر بحث اس پر جاری ہے کہ یہ کیا عمران خان کو قتل کرنے کی سوچی سمجھی سازش تھی یا محض ایک وارننگ شاٹ تھا یا پھر یہ ایک مذہبی جنونی کا اضطرابی ردِعمل تھا۔ اس واقعہ کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے کہ جس نے فول پروف سیکورٹی کے انتظامات پر تقاضوں کے باوجود کیوں نہ عمل کروایا یا پھر اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت اور اس کے زیرِانتظام ادارے ہیں۔
یہ سوچ کر کانپ اُٹھتا ہوں کہ اگر عمران خان کو قتل کرنا مقصود تھا اور وہ قتل ہوجاتے تو اس ملک میں کتنی خوفناک طوائف الملوکی پھیل جاتی اور سلسلہ جانے کہاں جاکر رُکتا؟ عمران خان پر حملے کی خبر سنتے ہی اُن کے مداح مختلف شہروں میں باہرنکل آئے اور اُن کا غصہ اور نعرے غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے ’’بدلہ لینے‘‘ کی کالز کے باوجود گلیاں اور محلے کشت و خون سے بچے رہے۔ لیکن اس حملے سے سیاست میں محاذ آرائی کے ساتھ ساتھ تشدد کا عنصر شامل ہوگیا ہے اورمذہبی کارڈ کا بے جا استعمال بھی شدومد سے در آیا ہے۔
عمران خان کے ناقدین الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے جو جنونیت پیدا کی اور جس طرح مذہب کا استعمال کیا، وہ اپنا ہی بویا کاٹ رہے ہیں۔ لیکن کون ہے جو مذہب کو سیاست کیلئے استعمال کرنے سے بازرہا ہو؟ قاتل کا جو بھی مقصد رہا ہو، اس ناکام قاتلانہ حملے سے عمران خان ایک’’زندہ شہید‘‘کے طور پر دیکھے جانے لگے ہیں۔ ان کے ’’رجیم چینج‘‘ کی عالمی سازش کے بیانیہ میں اب اُن کو مار ڈالنے کی سازش کا بارود بھی شامل ہو گیا ہے۔ دُنیا بھر میں اور ملک کے طول و عرض میں اُن پر قاتلانہ حملے کی پُرزور مذمت کی گئی ہے اور مستقبل میں ان پر کسی حقیقی قاتلانہ حملے کی ایک طرح سے پیش بندی بھی ہو گئی ہے۔
اب ریاست کی مجبوری ہو گی کہ اُن کی حفاظت کا فول پروف اہتمام کیا جائے۔ جب بے نظیر بھٹوپر کراچی میں منظم دہشت گرد حملہ ہوا تھا تو وہ خود حالات سنبھالنے کیلئے موجود تھیں اور جب راولپنڈی میں انہیں شہید کیا گیاتو آصف زرداری نے حالات کو ’’پاکستان کھپے‘‘کا نعرہ لگا کر سنبھال لیا تھا اور نواز شریف کو بھی انتخابات میں شریک رہنے پہ راضی کر لیا تھا۔ لیکن عمران خان کو کچھ ہو جاتا تو پیچھے پی ٹی آئی کو سنبھالنے والا کوئی بھی تو نہیں۔
عمران خان نے اپنے زخموں کے مندمل ہونے تک لانگ مارچ کو فی الحال ملتوی تو کر دیا ہے، لیکن اپنی پارٹی کو احتجاج جاری رکھنےکے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کی اگلی کال کا انتظار کرنے کا کہا ہے۔ لیکن اس دوران اُنہیں سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کیا اور کس طرح حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اُن پر حملے کے خلاف غم و غصہ تو بہت وسیع تھا، لیکن سڑکوں پرکوئی بڑا ہنگامہ تو نہ ہوا۔ البتہ سلامتی کے اداروں کے خلاف بہت نعرے بازی ہوئی۔ ان کی پارٹی نہ تو منظم ہے اور نہ ہی اُس کی کوئی فائیٹنگ ہارڈ کور ہے۔
اس لئے انہیں اپنے انقلاب (وہ جو بھی ہے؟) کو پرچی یعنی پُرامن جمہوری جدوجہد تک محدود رکھناچاہئے اور کسی خونیں انقلاب کی ترغیب سے اجتناب کرنا چاہئے جو موجودہ حالات میں نراجیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ویسے بھی حقیقی سماجی انقلاب کیلئے ایک انقلابی طبقاتی کایاپلٹ کا نظریہ اور محنت کشوں کی انقلابی جماعت چاہئے اور وہی اس گلےسڑے نظام کو تہ و بالا کر کے ایک منصفانہ، عوام دوست اور باہم رضاکارانہ شراکت کا نظام لا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عمران خان کی’’تبدیلی‘‘کی سیاست نہ صرف یہ کہ انقلابی نہیں بلکہ جمہوری وصف سے بھی محروم ہے کیونکہ وہ اب تک ریاستی اداروں کی اپنےسیاسی مخالفین کے خلاف امداد کے ملتجی ہیں اور ایک جدید نوآبادیاتی نوکرشاہانہ نظام میں سیاہ و سفید کے مالک بننا چاہتے ہیں،جس کا کہ تجربہ ہائبرڈ نظام کے زمین بوس ہونے پر پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے اور جس کے مصنفین اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
عمران خان کو اپنے ذاتی نرگسی خول سے نکلنا چاہئے اور اپنی مڈل کلاس کی پارٹی کو فسطائی بنیادوں کی بجائے جمہوری بنیادوں پر منظم کرنا چاہئے۔ انہیں اپنی پارٹی کے نظریات اور لائحہ عمل پر بھی غور کرنا چاہئے۔ وہ اسٹیٹس کو کو کیسے بدلیں گےاور کیا نیا متبادل نظام لائیں گے؟ اشراف کے قبضہ کو ختم کرتے ہوئے کس طرح کا عوامی ترقی کا ماڈل اختیار کریں گے؟ ملک کے معاشی حالات اتنے سنگین ہیں کہ اگر چینی و سعودی زرمبادلہ نکال دیا جائے تو اسٹیٹ بنک میں 40 کروڑ ڈالر رہ جاتے ہیں اور آئندہ برس کے لئے کوئی 33 ارب ڈالرز درکار ہوں گے جس کیلئے اب تک چین اور سعودی عرب سے 13ارب ڈالرز کے وعدے سامنےآئے ہیں۔
ایسے دگرگوں مالیاتی حالات ، جبکہ سیلاب زدگان کی بحالی کے ذرائع بھی میسر نہیں، کا تقاضا ہے کہ وہ ملک کو مزیدافراتفری کی نذر نہ کریں اور نہ ہی پھر سے مقتدرہ کی گود میں بیٹھنے پہ آمادہ ہوں۔ناکام قاتلانہ حملہ کے بعد مزید اشتعال انگیزی کوئی دانش مندانہ راہِ عمل نہیں، بلکہ اس حملے نے خان صاحب کو لانگ مارچ کی تھکاوٹ اور بندگلی سے نکال دیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ اس بند گلی میں پھر سے جانے کی بجائے اسمبلی میں واپس جا کر جمہوری ٹرانزیشن کوکامیاب بنائیں۔